20 Safar ul Muzafar Chehlum imam e Hussain (a.s) - Written Majlis - Nohayforyou


*بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم                         

*20 صفر المظفر*

*چہلم حضرت امام حسینؑ و شہیدان کربلا*


بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ وَصَلَّى اللهُ عَلى سَيِّدِنَا وَنَبِيِّنَا وَحَبِيبِ قُلُوبِنَا وَطَبِيْبِ نُفُوسِنَا وَشَفِيعِ ذُنُوبِنَا أَبِي الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَعَلَى الِهِ الطَّيِّبِينَ الظَّاهِرِينَ الْمَعْصُومِينَ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى أَعْدَائِهِمْ أَجْمَعِينَ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا إِلَى يَوْمِ الدِّين وَالْجَنَّةُ لِلْمُطِيْعِيْنَ وَالنَّارُ لِلْعَاصِين۔

                                    پانچویں امام سے کسی نے پوچھا!

پانچویں امام البتہ کربلا میں موجود تھے ساڑھے تین برس کے تھے 57 ہجری میں امام کی ولادت ہے 61 ہجری میں واقعہ کربلا ہے امام کی اول رجب کو ولادت ہے اس حساب سے امام کربلا میں 3 برس کے تھے)

امام سے پوچھا کہ ! مولا جناب سید الشہداء کے قاتل یہ کہتے ہیں کہ جب آپ پشت ذوالجناح سے زمین پہ آگیے تو آپ کی جو سواری ہے وہ آپ کا طواف کر رہی تھی بار بار ذوالجناح طواف کرتا تھا اور آوازیں بلند کرتا تھا مولا کیا واقعا زوالجناح امام حسین سے کچھ کہہ رہا تھا یا وہ حیوان اپنی آوازیں بلند کر رہا تھا امام نے فرمایا ! وہ بار بار ایک جملہ دہرا رہا تھا اور کہتا تھا ! وائے ہو اس امت پہ جنہوں نے اپنے ہی بنی کے نواسے کو مار دیا !! 

کہا مولا کچھ اور بھی کہہ رہا تھا ؟ امام رونے لگے اور روتے روتے امام نے ایک جملہ کہا وه بار بار امام حسین کا طواف کر کے مخاطب ہوکے ایک جملہ کہتا تھا ! اے میرے آقا ایک مرتبہ ہمت کرکے میرے پشت پر واپس آجائیں میں آپ کو اتنی دور لے جاؤں گا پھر کوئی تیر آپ کو نہیں لگے گا۔

امام رونے لگے ایک مرتبہ اس راوی نے پوچھا مولا پھر مولا حسین نے بھی اس سے کچھ کہا!

مولا نے کہا؟ مولا نے اس سے ایک بات کہی کہا! زوالجناح جا کے میری بہنوں اور بیٹیوں کو بتا دے کہ میں اب میں ذوالجناح کی پشت سے گر گیا ہوں میں تیری پشت پہ نہیں رہا میری شہادت ہونے والی ہے اس وقت وہ ذوالجناح فوراً خیموں کے باہر آگیا جب تک پہنچا بیبیاں جب بھی ذوالجناح کی آواز سنتی تھی تو سمجھ جاتی تھی امام حسین تشریف لائے ہیں اب دیکھا کہ ذوالجناح بہت زیادہ آوازیں بلند کر رہا ہے تو ایک بی بی نے خیمے کا پردہ کو ہٹا کے دیکھا ذوالجناح کے

پشت پہ کوئی بھی نہیں تھا، ساری بیبیاں خیموں سے باہر آگئی

زیارت ناحیہ میں امام زمانہ کہتے ہیں ! میرا سلام ہو میری ان پھپھیوں پہ جو چہروں پہ ماتم کر رہی تھی اور چہروں کو پیٹتی ہوئی خیموں سے باہر آئی (لا تماتِ الخدود)

سوگ نامہ آل محمد میں پانچویں امام کے الفاظ ہیں ! مولا حسین کی بیٹی ہیں سکینہ ایک مرتبہ وہ آگے بڑھیں اور کہا! اے ذوالجناح جب میرے بابا خیمے سے گیۓ تھے تو بہت پیاسے تھے

 !!ے سے مجھے تھے تو بہت پیاسے تھے بس اتنا بتا دے میرے بابا نے جملہ پانی پی لیا تھا یا میر بابا پیاسے ذبح ہو گئے

امام کہتے ہیں بی بی روتی رہی اور تھوڑی دیر بعد خود ہی جواب دیا ! اے ذوالجناح تیری لٹکی ہوئی ذین بتا رہی ہے میرے بابا تیری پشت سے اترے نہیں میرے بابا گرے ہیں جب مولا سے پوچھا! تو زوالجناح نے کیا کیا ؟ فرماتے ہیں ! اس نے اپنے آپ کو فرات میں گرادیا سارا لشکر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا اس نے کہا میں جینا نہیں چاہتا میرا سوار نہیں رہا


 شیخ محمد مہدی معذ اندرانی نے معالی السبطین میں لکھا ہے ؟ ایک کبوترے اڑنے کے بعد دیکھا امام حسین کا لاشہ زمین پر پڑا ہے اور خون بہہ رہا ہے تو تڑپنے لگا ۔ اڑتے ہوئے باغ میں گیا اور جانے کے بعد سارے پرندوں سے کہا ! یہاں تم اٹکیلیاں کر رہے ہو تمہیں نہیں پتہ زہرا کے بیٹے کو مار دیا گیا ہے، نواسہ رسول کو زبح کر دیا گیا، سارے پرندے تڑپنے لگے کہا ! کہاں پر مارا ؟

کہا! کربلا کے میدان میں حسین کو زبح کر دیا !

روایت کے الفاظ ہیں! امام حسین کے لاشے کے چار حصے ہو گئے تھے۔ ایک سرتھا جو نیزے پر بلند تھا دوسرا لاشہ تھا جو میدان کربلا میں پڑا تھا تیسرا ان کا خون تھا جو ریت پہ بہہ رہا تھا چوتھی انکی روح تھی جو اعلی علیین میں پر پیوست ہوگئی تھی۔

ایک مرتبہ سارے پرندے کربلا کے میدان میں

آئے جب پہنچے تو وہاں پہ دیکھا امام حسین کا خون بہہ رہا ہے وہ سارے کبوتر خون میں لوٹنے لگے اپنے پروں سے خون اٹھانے لگے ایک کبوتر اڑتا ہوا مکے کی طرف چلا گیا دوسرا مدینے کی جانب چلا گیا، ایک نجف چلا گیا۔ شیخ محمد معذ اندرانی کہتے ہیں جو کبوتر مدینے گیا تھا، مدینے میں ایک یہودی تھا اس کی بیٹی لا اعلاج تھی اس کو برص کا مرض تھا پرانے زمانے میں کہتے تھے ایک دوسرے کو لگ جاۓ گا مدینے سے باہر لا کر ایک باغ میں بند کرکے رات کو چلا جاتا تھا وہ نابینا بھی تھی رات میں وہ بچی درخت کے نیچے لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک ایک قطرہ خون کا اس کے آنکھ میں گرا اس کی بینائی آگئی ، جب چہرے یہ خون گرا اس کا مرض ٹھیک ہو گیا صبح کو جب اس کا باپ آیا تو اس نے پوچھا ! رات میں اپنی بیٹی کو چھوڑ گیا تھا تم نے میری بیٹی کو تو نہیں دیکھا اس بچی نے کہا بابا میں آپکی بیٹی ہوں کہا کل رات میں تجھے بینائی کے بغیر چھوڑ کے گیا تھا کہا ! بابا کل رات سے یہ کبوتر مسلسل روتا چلا جارہا ہے اور بار بار کہتا ہے وا حسین واحسین"

بایا اس کے پروں سے جو خون گرتا ہے اس سے شفاء ہو جاتی ہے! اس یہودی نے فوراً کلام کیا ! کہا تم کون ہو کہاں سے آئے ہو ، کس کا ذکر کرتے ہو

کہا مسلمانوں کے جو نبی ہیں ان کے نواسے حسین کو مار دیا ہے کربلا کی نگری سے میں یہاں آیا ہوں وہ یہودی ایمان لایا۔


میں نے عجیب رنگ دیکھا ہے چہلم کی مجلس میں لوگ آمادہ ہوتے ہیں ایک جملے پر آنسوؤں کی لڑیاں بہنے لگتی ہیں مضطرب ہونے لگتے ہیں

یہ دن وہ دن ہے جس دن زینب خون روئی ہے زینب کے گریہ کا دن ہے اس لیے کہ جب بی بی روتی تھی تو تعزیانہ آتا تھا

رونے والوں ایک جملہ ذرا دل پہ لے جانا ایک رونے زندہ ہی نہیں رہی

امام سجاد سے یزید نے کہا ! ہم آپ کو آزاد کرتے ہے اپنے وطن واپس چلے جائے

امام نے فرمایا! میں اپنی پھوپھی سے پوچھوں گا

عزادارو! ہارنے اور جیتنے کا مفہوم دیکھے کیسے روشن کیا مولا نے 

کہا؟" پھوپھی اماں یزید ہمیں رہا کر رہا ہے

بی بی نے فرمایا ! میری تین شرطیں ہیں

جو شرط منواتا ہے وہ جیتا ہے اور جو مانتا ہے ہارتا ہے

بی بی نے فرمایا ! پہلی شرط یہ ہے مجھے گھر چاہیے جہاں میں حسین کا ماتم کروں

دوسری شرط یہ ہے ہمارے تبرکات واپس کیے جائیں

عزادارو تبرکات تھے کیا جو بی بی نے مانگے تھے

وہ سکینہ کے گوشوارے ہیں وہ زینب کی چادر ۔

دوسرا مطالبہ ہمارے تبرکات واپس کیے جائیں تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ایسا فرد کیا جائے جو ہمیں مدینہ پہنچ کر آئے یزید نے کہا میں دو مطالبات مان سکتا ہوں ایک نہیں مان سکتا

 بشیر کا باپ بھی شیعہ تھا بشیر بھی آپ کا چاہنے والا ہے اسے آپکے ہمراہ کروں گا راستوں سے آشنا ہے آپ کو مدینے پہنچائے گا ایک گھر بھی آپ کو دیتا ہوں جہاں آپ عزاداری کریں اورماتم بھی کریں مگر تبرکات کوئی لوٹ کر کہیں لےگیا میں آپ کو اس پیسے دینے کو تیار ہوں

امام بیٹھے تھے کھڑے ہوگئے کہا تیرے پاس وہ پیسے کہاں ہیں جو ذینب کی چادر کے بدلے دے سکے۔

عزادارو گھر ملا میری بی بی ماتم کر رہی ہیں

شام کی عورتوں کو کربلا سے آشنا کر رہی ہیں دوسرے دن تبرکات آنا شروع ہوئے ہیں۔

بہت سی چیزیں واپس آئی شہیدوں کے سر آئے ایک گھٹڑی لاکر رکھ دی

گئی کہا یہ کیا آیا ہے؟

کہا یہ بیبیوں کی چادریں واپس آئی ہیں

اب جناب زینب نے گھٹڑی کھولی ایک چادر کو دیکھ کر کہا بھابھی ام فروہ آپ کی چادر آگئی ہے

دوسری چادر کو دیکھ کر کہا! ام لیلی آپ کی چادر آگئی ہے پھر آواز دے کر کہا بہن ام کلثوم آپ کی چادر بھی آگئی ہے ایک چھوٹی سی چادر پر نگاہ گئی میری

بی بی نے چادر اٹھالی قبر سکینہ پر پھیلا دی سکینہ اٹھو

میری بیبی آمادہ ہو گئی اب شام سے مدینہ جائیں گے امام سجاد نے فرمایا ! پھپھی اماں محملیں تیار ہیں جناب زینب نے باہر آکر دیکھا کہ محملوں پر رنگین کپڑے لگے ہوئے ہیں بی بی نے فرمایا! نہیں زین العابدین میں ان محملوں میں نہیں بیٹھوں گی ان

رنگین کپڑوں کو ہٹاؤ کالے کپڑے لگاؤ تا کہ جہاں جہاں سے قافلہ جائے لوگ سمجھ جائیں حسین کے عزادار جارہے ہیں امام سجاد نے ان رنگین کپڑوں کو تبدیل کروایا محملیں تیار ہوئیں بیبیاں بیٹھنا شروع ہوئیں امام سجاد نے پوچھا پھپھی اماں کیا ساری بیبیاں بیٹھ گیا فرمایا ! بھابھی رباب نظر نہیں آرہی۔ امام سجاد نے فرمایا ! مجھے معلوم ہے میری ماں کہاں ہے مگر اماں میں اکیلا نہیں لا سکوں گا میرے ساتھ سب چلو امام سجاد آگے پیچھے پیچھے بیبیاں زندان شام میں قدم رکھا کیا دیکھا جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو گلے لگائے ہو ایسے جناب رباب نے قبر سکینہ کو گلے سے لگایا جناب زینب نے آواز دی قافلہ تیار ہو گیا تو کانپتی ہوئی آواز میں بولی میرا مدینے میں کون ہے میرا والی کربلا میں میری بچی اکیلی ہے۔

جب یہ قافلہ مدینے پہنچا اور جناب بشیر نے مدینے جا کر منادی دیا حسین کا لٹا ہوا قافلہ آگیا ہے تو سارا مدینہ شہر سے باہر گیا جہاں امام سجاد نے خیمہ لگایا تھا۔

بشیر کہتے ہیں ! جب میں پلٹا سارا شہر واپس آچکا تھا راستہ نہیں مل رہا تھا کہ امام سجاد سے رخصت ہوں اور کہوں مولا میں نے آپ کو مدینہ پہنچا دیا مجھے جانے کی اجازت ہے۔

امام نے مجھے دور سے دیکھا تو اشارہ کیا ! بشیر قریب آؤ تو میں رستے کو کاٹتا ہوا امام کے پاس آیا امام کے ہاتھوں کا بوسہ دیا امام نے فرمایا ! میری پھپھی زینب نے تمہارے لیے انعام رکھا ہے یہ کہہ کر امام خیمے میں گیۓ

ایک رومال بندھا ہوا لے کر آۓ بشیر کہتے ہیں امام نے وہ رومال مجھے دے دیا مجمعہ بہت تھا میں وہاں کھول کر نہ دیکھ سکا امام کو سلام کیا اور میں چلا گیا دور جا کے جب میں نے اسے کھولا تو دیکھا بیبیوں کے زیورات تھے۔

 میں کہوں گی کربلا کے ظالموں سے تم نے سکینہ سے گوشوارے مانگ لیے ہوتے ارے وہ سخی حسین کی بیٹی تھے کبھی منع نہ کرتی۔۔۔۔۔۔



 Previous post: 17 Safar Masaib written majlis


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.