27 Muharram Fazail-O-Shahadat Hazrat Measum Tammar - Written majlis - Nohayforyou


 

*27 محرم الحرام*                             

*موضوع*                                     

*فضائل و مصائب حضرت میثم تمار*               


*عزیز من!*                                                                     

   میثم تمار کون ؟                                       

عاشق علیؑ تھے ! میثم تمار اس زمانے میں مشہور تھے جنہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ مبارک ہو تمہیں ایسا پڑھنا لکھنا آتا ہے جو تمہیں اہلبیتؑ سے دور کر دے وہ تعلیم ہی نہیں ہے جو اہلبیت سے دور کر دے تمہیں !! کون تھے میثم تمار ؟

 تمار کہتے ہیں تمر فروش یعنی کھجور بھیجنے والے کیا کوئی گودام تھا فیکٹری تھی ؟

بہت سادہ سے آدمی ٹھیلا لگاتے تھے وہ بھی زمین پہ کھجوریں بیچنے کے لیے ! لیکن اکثر اوقات دیکھا گیا امیر المومنین پوچھ رہے ہیں میثم تمار کو تو نہیں دیکھا تم نے ؟ 

لوگ کہتے یا علی وہیں ہوں گے مسجد کوفہ کے باہر جہاں کھجور ہوتے ہیں!".

وہ مولا کائنات جب عام افراد کو پتہ ہے کیا مولا کو نہیں پتہ ہو گا ویسے ظواہر سے بھی پتہ ویسے بھی مولائے کائنات ہیں جانتے تھے کیوں پوچھ رہے تھے ؟

پوچھ کے اظہار فرما رہے تھے دیکھو مجھے کتنی محبت ہے!!

 جناب میثم تمار ڈھکے چھپے الفاظ میں مولا ست پوچھنا چا رہے تھےآپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں لیکن انھوں نے پوچھا نہیں 

جب جناب میثم نے پوچھا

مولا کیسے پتا چلے کسی کے دل میں ہمارے لئے محبت ہے یا نہیں؟

ہم امام اسے مانتے ہیں جو دلوں کے راز جانتا ہو جناب امیر مسکرائے سمجھتے تھےمیثم تمار کیا پوچھ رہے ہیں

مولا مسکرائے کہا میثم میرے دل کو دیکھنے کی ضرورت نہیں اپنے دل میں جھانک کے دیکھو تم مجھے کتنا چاہتے ہو میثم اس سے زیادہ میں تمہیں چاہتا ہوں۔

میثم تمار سادہ انسان تھے لیکن عاشق علی تھے جہاں مولا کا پسینہ گرتا تھا وہاں خون دینے کے لیۓ تیار ہوتے تھےاس حد تک عشق!!

  میثم تمار کے بارے میں نظریہ ہے کہ تین ایسی شخصیات تھیں جو راز دار علی تھیں ، عمار یاسر، سلمان فارسی میثم تمار عاشق علی ! 

ایک مرتبہ مولا علی نے میثم تمار کو سینے سے لگایا اور بہت دیر تک سینے سے لگائے رکھا ایک وقت ایسا آیا میثم نے کہا۔

مولا میرا سینا معرفت سے پر ہو چکا ہے علی نے اپنے سینے سے میثم کے سینے میں معرفت کو منتقل کیا اس کے بعد میثم کی جو زندگی تھی تبدیل ہو چکی تھی 

ایک مرتبہ میثم تمار نے کہا ! مولا میری جگہ پر بیٹھیں کھجوریں

بیچنے کے لیئے میں ضروری کام سے جانا چاہتا ہوں

مولا یہ نہیں کہتے میثم تمار تمہیں نہیں معلوم میں تمہارا امام ہوں تمہارا مولا ہوں خلیفتہ المسلمین ہوں کچھ نہیں کہا! مولا نے فرمایا ! میثم جلدی جانا جلدی آنا ! لیکن ساتھ ساتھ ادب

بھی سکھائے جا رہے ہیں! میثم تمار چلے مولا امیر المومنین بیٹھ گئے اب وہاں سے ایک منافق گزر رہا تھا کوفے میں کمی نہیں تھی! وہ آیا اس نے سوچا علی نے کبھی کھجور بھیجے تو نہیں اس نے سوچا دھوکا دے دوں گا وہ آیا کہا! یا علی ایک درھم میں کتنے کھجور آتے ہیں ؟

 مولا نے کہا؟ اب تک تو کتنے میں لیتا رہا ہے اب اس نے وزن بتایا کہ اتنے میں ہمیشہ لیتے رہا ہوں 

مولا نے کہا! ایک درہم یہاں رکھ کھجور تول اور لے جا! اب اس کے پاس تھا کھوٹا سکہ ( میں کہوں گی وہ خود ہی کھوٹا سکہ تھا) شاعر کہتا ہے !! 


میں ذکر مرتضیٰ سے لذت عرفان لیتا ہوں دلوں کی کیفیت بھی ایک پل میں جان لیتا ہوں 

دل مومن مچلتا ہے منافق اور جلتا ہے

 علی کے نام سے کھوٹا کھرا پہچان لیتا ہوں


اس نے سکہ چھپا کے کپڑے کے نیچے رکھا اب وہ سوچ رہا ہے چھپا کے رکھوں گا مولا کو کیا پتہ چلے گا پتہ نہیں کس کس کا

تجربہ کر کے آیا ہو گا ! اب اس نے کھجور تولے اور گھر چلنے لگا

اب اس کی زوجہ جو انتہائی مومنہ ! ایسا تاریخ میں بہت ہوا ہے جیسے ! جناب آسیہ کو فرعون نصیب ہوا !

 اب اس نے سوچا گھر جاکر بیوی کو بولوں گا اور مولا کو مان ہمیشہ مولا مولا کہتی ہے ! گھر پہنچا کہا اور مان علی کو

 کٹر قسم کی مومنہ تھی اس کے ایمان میں اندر زلزلہ آنے والا نہیں تھا ! کہا کیوں کیا بات ہے؟ تعجب شوہر پہ کیا مولا پہ نہیں

 کہا ! میں تیرے مولا کو دھوکہ دے کے آ رہا ہوں ! اس نے.

کہا اچھا کیا کیا ؟ کہا! ایک کھوٹا سکہ تھا کہیں اور تو چلنے والا نہیں تھا میں نے علی ابن ابی طالب سے کھجور خرید لیے ہیں !

اس نے کہا کھا کے دیکھ اس نے کھجور کھایا قے کرنے لگا ! اس نے کہا ایک کھوٹا سکہ تھا کہیں چلا لیتا اس زہریلے کھجور کا کیا کروں گا

 ادھر جناب میثم تمار پہنچے کہا! مولا میرے پیچھے کوئی سودا کیا ؟ سادگی اتنی ہے کہ مولا کے عاشق ہیں اور جب وہ مولا کے عاشق ہیں تو ہم ان کے عاشق ہیں !!

مولا نے کہا ! ہاں وہاں سکہ رکھا ہے جناب میثم تمار نے سکہ دیکھا کہا! ایک سودا کیا وہ بھی کھوٹے سکے کا کیا ! 

کہا میثم منتظر رہو ابھی ایمان میں اضافہ ہو جائے گا اتنے میں وہ آدمی واپس آ گیا کہا یا علی یہ کھجور زہریلے ہیں مولا نے کہا ! تیرا سکہ کیسا تھا ؟ اس نے کہا! آپ نے دیکھ لیا تھا ؟

مولا نے کہا ! جو دیکھ کے بتائے وہ علی نہیں کہا ! اپنا سکہ واپس لے جا کھجوریں واپس ڈال دے اس نے سکہ لیا اکھجوریں ڈالنے لگا جناب میثم تمار نے کہا رک جا یہ زہریلے کھجور یہاں نہ رکھ الگ رکھ

مولا نے کہا! میثم پھر بھی سمجھ میں نہیں آیا میثم ہے جب تک اس کے پاس ہیں تب تک زہر یلے ہیں جب یہاں واپس آئیں گے دوبارہ پہلے جیسے ہو جائیں گے

 عزیز من!

یہ ہے مودت مولا جو کہہ دے اس پر شبہ زہن میں نہ آئے

میں نے یہ پورا سمجھایا تا کہ آپ کو سمجھ میں آجائے سادگی اور علم کا نہ ہونا کوئی حرج نہیں ہے! جناب میثم تمار وہ ہستی ہیں کہ امیر المومنین خود سے گواہی دے رہے ہیں کہ یہ شہداء میں ہو گا !

 کہا ! اے میثم تمار تمہیں میرے عشق کی میرے ولایت کے جرم میں قتل کیا جائے گا ! کہا مولا کیسے ؟

کہا! انگلیوں کو کاٹ دیا جائے گا ، پاؤں کی انگلیاں کاٹی جائیں گی زبان کو کاٹا جائے گا ۔ سولی پر چڑھا دیا جائے گا میثم تمار اگر حجاج ایسا کر گا تو تمہیں اجازت ہے وہ جب گستاخی کے لیے کہے گا تم کر سکتے ہو تمہیں اجازت دیتا ہوں میں پھر بھی شفاعت کروں گا !

 کہا ! مولا کتنی مرتبہ میرے ساتھ ایسے ہو گا

کہا ! میثم تمار ایک بار

 کہا اگر ایسا 70 مرتبہ بھی ہو ، سولی پر چڑھا دیا جائے آگ لگا دی جائے پھر خاک اڈا دی جائے تب بھی آپ کی شان میں گستاخی نہیں کروں گا


اس منظر کی عکاسی کرتے ہوۓ کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے۔۔۔


یہ زبان کاٹ دو جسم و جاں کاٹ دو

مدحت مرتضیٰ کی سزا دو مجھے

 ذکر شاہ نجف سے رکوں گا نہیں

 چاہے سو بار سولی چڑھا دو مجھے

 ٹکڑے ٹکڑے کرو میرا سارا بدن

 آگ روشن کرو اور جلا دو مجھے،

 اور جب میرے جسم کی راکھ بن جائے ناں ظالموں پھر ہوا میں اڑا دو مجھے 

ایک دو دن نہیں صبح محشر تلک

 جس طرف جس جگہ یہ ہو ا جائے گی

 یہ علی کے موالی کا وعدہ رہا

 یا علی یا علی کی صدا آئے گی " 


عزیزان من! یہ جو کائنات کا نظام چل رہا ہے عزاداری کے صدقے میں چل رہا ہے، یہ آپ کی مودت ولایت کو بڑھاتی ہے آپ کو سمجھ میں تب آتا ہے جب آپ سید الشہداء کی بارگاہ میں آتے ہیں! 

جناب میثم تمار مولا  نے کہا ! تمہیں میری ولایت کے جرم میں مارا جائے گا

 کہا ؟ مولا کہاں پہ 

مولا نے کہا ! یہاں کوفے میں

 کہا ! مولا جگہ؟

 کہا! اس درخت پر سولی پر لٹکایا جائے

اب جناب میثم تمار ہر روز جا کے پانی دینے لگے کہا اگر علی کے عشق میں موت آنے والی ہے تو کل کی آتی آج آجائے

ہر روز پانی دے رہے ہیں لوگوں نے سوال کیا  یثم تمار یہ درخت تو تیرا نہیں ہے تیرا کہیں اور باغ ہے تو کہیں اور سے کھجور لیتا ہے اس درخت کو پانی کیوں دیتا ہے

کہا ! تم نہیں سمجھ سکتے یہ ولایت کا معاملہ ہے! اب وہ درخت ایک دن خشک ہو گیا اس پہ پھل نہیں آتا تھا سارے پتے جھڑ گئے بس ایک تنا کھڑا تھا اب اس کے سائے میں بیٹھے پر روز قرآن پڑھ رہے ہیں۔ 

کہا ! کیا بات ہے یہاں کیوں آتے ہو؟

 میثم نے کہا یہاں میری شہادت ہے

کہا ! درخت تو خشک ہو گیا

میثم نے کہا مولا میرے مولا نے کہا تھا یہاں ہے تو بس یہیں ہے شہادت !!


(شہادت)


ایک مرتبہ حجاج نے کہا ! مجھے کسی ایسے آدمی کو لاؤ کئی دنوں سے میں نے خون نہیں دیکھا کسی علی کے چاہنے والے کا کھانا کھانے سے پہلے چاہتا ہوں کسی علی کے چاہنے والے کو قتل کرواؤں !

ایک مرتبہ میثم تمار کو لائے ، جب ایک مرتبہ لائے تو کہا ! بتا تیرے مولا نے تجھے کیا بتا یا تھا کیسے قتل کروں گا 

کہا! تو میری انگلیاں کاٹے گا سولی پر چڑھائے گا زبان کاٹے گا اب درخت نہیں بتایا ! "

اس نے کہا ! میں تیرے مولا کو معاذ الله) جھوٹا ثابت کرنا چاہتا ہوں میں تیری زبان نہیں کاٹوں گا 

افراد سے کہا ! جاؤ اسے سولی پر چڑھا دو، ہاتھوں میں کیلیں ہیں۔ انگلیاں کٹ چکی ہیں ایک مرتبہ کہا! اے کوفے والوں آخری مرتبہ میثم کی زبانی علی کے فضائل سنتے جاؤ دوبارہ موقع نہیں ملے گا اب ایک مرتبہ سارا کو فہ جمع ہونے لگا جب بہت بڑا مجمع

لگ گیا ! 

کہا میں اس امام کا ماننے والا ہوں کہ جس نے دونوں قبلوں یہ نماز پڑھی ہے جس نے دو تلواروں سے جنگ کی ہے جو کعبہ قوسین وادنی پر گیا ، جو خانہ کعبہ میں آیا اور مسجد سے گیا جب ایک مرتبہ فضائل شروع کیے حجاج نے سوال کیا؟ کیا بات ہے یہاں یہ مجمع کیوں لگا ہے ؟ کہا ! میثم تمار علی کے فضائل سنا رہا

کہا جاؤ جا کے اسکی زبان کاٹ دو، جیسے ہی زبان کانٹے لگے کہا جا کے حجاج سے کہنا جھوٹا وہ ہے میرا مولا نہیں !!۔۔۔۔۔    


Previous post: Masayib Moula imam Syed Sajjad (a.s)




Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.