1 Safar-ul-Muzafar - Masaib Dakhilla Ahle Haram Darbar Yazeed laeen - Written majlis - Nohayforyou


 

*بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ*                       

*(1) یکم صفر المظفر*                          

*مصائب 

*موضوع*                                                                     

*داخلہ اہل حرم دربار یزید لعین*                 


بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ وَصَلَّى اللهُ عَلى سَيِّدِنَا وَنَبِيِّنَا وَحَبِيبِ قُلُوبِنَا وَطَبِيْبِ نُفُوسِنَا وَشَفِيعِ ذُنُوبِنَا أَبِي الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَعَلَى الِهِ الطَّيِّبِينَ الظَّاهِرِينَ الْمَعْصُومِينَ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى أَعْدَائِهِمْ أَجْمَعِينَ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا إِلَى يَوْمِ الدِّين وَالْجَنَّةُ لِلْمُطِيْعِيْنَ وَالنَّارُ لِلْعَاصِينَ.


عزادارو!!                                                                       

20 رجب 60 ہجری جناب سید الشہداء مدینہ سے چلے عبد ابن عباس نے سوال کیا !

 کہا کہ مولا عراق والوں

نے آپ کے بابا کے ساتھ وفا نہیں کی تھی پھر آپ کے بھائی حسن کے ساتھ وفا نہیں کیا عراق والوں پہ بھروسہ مت کیجئے مولا نے کہا ! میں جانتا ہوں کہ یہ نہیں ہیں میرے

ساتھ کیا !

کہا پھر آپ کیوں جا رہے ہیں ؟ 

کہا میں شہادت کے لیے جا رہا ہوں !!

 کہا ؟ اچھا آپ جانتے ہیں آپ شہید ہوں گے مولا نے کہا! مجھ سے پوچھ مجھے بتا مت کہا! مولا پھر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آپ بہنوں کو کیوں ساتھ لے جا رہے ہیں؟ مولا نے کہا میری قربانیوں کی وجہ سے اسلام بچے گا اور میری بہنوں کی وجہ سے میری زحمتیں ، میری قربانیاں بچے گی

مشیت ابھی یہ ہے کہ میری بہنیں میرے ساتھ جائیں ارادہ نہیں مشیت کہا ارادہ اور مشیت میں بھی فرق ہے وقت ارادہ خواہش کا نام ہے مشیت فیصلے کا نام ہے!! 



یزید کیا سوچ رہا تھا کہ اس نے چاروں طرف سے گھیر کے امام حسین کو میدان کربلا میں شہید کردیا سب اصحاب کو مار دیا بیٹوں کو مار دیا اب کچھ نہیں بچا لیکن عزیزان گرامی جہاں جہاں سے جناب زینب گزرتی تھی جہاں تھوڑا سا بھی مجمعہ دیکھتی تھی بی بی کہتی تھی ایھا االناس اے لوگوں یہ باغی کا نہیں نواسہ رسول کا قافلہ آرہا ہے یہ نواسہ رسول کا سر ہے

 یہاں تک ایک مرتبہ عبید اللہ ابن زیاد کا دربار تھا اس نے بی بی سے مخاطب ہو کے کہا خدا نے تیرے بھائی کو مار دیا تو بی بی نے فوراً کہا خدا لعنت کرے میرے بھائی کے قاتل پہ !جب عبید اللہ نے یہ سنا فورا غصے میں آیا اور کہنے لگا آپ لعنت کیوں کر رہی ہیں

 بی بی نے کہا تجھے کیا تکلیف ہے میں نے تو اپنے بھائی کے قاتل پہ لعنت کی ہے ! وہ جانتا تھا بی بی اس ایک جملے میں سب کچھ کہ گئی ! 

جیسے بی بی نے خطبہ شروع کیا تو وہاں پہ حضرت عبداللہ عفیف موجود تھے انھوں نے صرف الفاظ سنے بی بی کے ان کی دونوں آنکھیں نابینا ہو چکی تھی ایک جمل میں ایک صفین میں تو انہوں نے فوراً آواز دے کے پوچھا کون ہے جو علی کے لہجے میں خطبہ دے رہا ہے علی کی شہادت کو 20 برس سے زیادہ ہو چکے ہیں!

تو کسی نے آواز دی ! یہ علی کی بیٹی ہے 

وہ جناب عبد الله عفیف تھے عاشق امیر المومنین تھے مولا کا نام سننا تھا کہ کہا ! مولا کی بیٹی؟

 تم نہیں جانتے وہ علی کہ جب آ رہی تھی بیٹیاں انھوں نے کوفے والوں نے کہا تھا آج رات کوئی گھر سے باہر نہ نکلے تو کوفے والوں نے کہا مولا کیوں؟ مولا نے کہا آج رات نبی کی نواسیاں آرہی ہیں ! 

کہا؟ جب پہلی مرتبہ یہ بیبیاں آئیں تھی تو مولا نے اتنا پردہ کا اہتمام کیا تھا کہ رات میں شہر میں لائے تھے اور لوگوں سے کہا تھا کہ کوئی گھر سے باہر نہ نکلے !! 

کہا! تو مجمع عام میں لے آیا ، فوراً عبید اللہ کو سرزنش کرنے لگے ، لعن تعن کرنے لگا سخت الفاظ میں ہم کلام ہوئے عبید اللہ نے فوراً اشارہ کیا اسے قتل کر دو تو ان کے جاننے

والے انہیں گھر لے گئے! 

عبد اللہ حنیف برداشت نہیں کر سکے کہا کہ علی کی بیٹی عبید اللہ کے دربار میں !!!

امام سجاد سے جب پوچھا گیا کہ مولا سب سے زیادہ مصائب کہاں سخت تھا تو امام نے بلند آواز سے کہا ! آشام آشام

کہا مولا کیوں؟ مولا نے کہا ! نامحرموں کا مجمعہ تھا ، ہاتھوں میں پتھر تھے باغیوں کے نارے تھے ، بالا خانوں یہ مستورات تھی اور پانی پھینک رہی تھی میری پھپھیاں اونٹنیوں پہ تھی لوگ پتھر مار رہے تھے اور لوگ کہتے تھے باغیوں کا قافلہ اور وہ میں برداشت نہیں کر پاتا تھا 

کہا! اور مولا کیا چیز ہے جو شام کی آپ کو رلاتی ہے کہا مجھے قیدیوں کے ساتھ زمین پہ غلاموں کی طرح بٹھا دیا تھا !!

یکم صفر آج بیبیاں شام پہنچی ہیں !

" بی بی مدینہ28 رجب  60 ہجری میں چلی اور یکم صفر کو 61 ہجری میں بی بی پہنچی ہیں شام میں کب سے سفر میں ہیں 28 رجب سے تو اب چھ مہینے دو دن سے سفر میں ہیں بی بی

 علی کی بیٹی 6 مہینے سے زیادہ ہو گیا سفر میں ہے بی بی کے پاؤں کتنے زخمی ہوں گے ایسا تو نہیں کہ یکم صفر کو شام پہنچی ہوں تو نالین ٹوٹ چکے ہوں گے ، پاؤں میں کانٹے ہوں گے جب کسی نے بی بی فضہ سے پوچھا! یہ جو بیبیاں گزر رہی ہیں کون ہیں ؟

 کہا یہ نبی کی نواسیاں ہیں 

کہا! کیا وجہ ہے کہ جہاں بھی پاؤں رکھتی ہیں زمین سرخ ہو جاتی ہے

 فضہ نے کہا ان کے نالین ٹوٹ گئے ہیں پاؤں زخمی ہیں پاؤں سے خون بہہ رہا ہے !!

ایک مرتبہ جناب زینب نے سوال کیا ! بیٹا سجاد کیا بات ہے ہمیں روکا کیوں گیا ہے۔

 امام سجاد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ایک جملہ کہا پھپھی اماں دربار کو سجایا جا رہا ہے

 بازار کے اختتامی راستے پر اونٹنیوں کو بٹھایا گیا اور کہا گیا کہ ان بیبیوں کو اتر کے دربار میں داخل ہوں جیسے ہی بی بی دربار میں داخل ہوئی تو جناب زینب کی نگاہ پڑی کسی خاتون پہ نام ہے ہند !

ہند بچپنے میں بہت بیمار تھی یہودی کی بیٹی تھی اس یہودی سے کہا ! مدینے میں کوئی علی ہے جا کے علی سے اعلاج کرالو ایک مرتبہ وہ یہودی آیا اور کہا ! 

میں بڑی امید لے کے آیا ہوں میری بیٹی بہت بیمار ہے مولا نے کسی غلام کو آواز دی کہا پانی لے کے آو پانی لے کے آیا ! مولا نے کہا ! میرے بیٹے حسین سے کہ دے کہ اس پانی کو ہاتھ لگا دے امام حسین نے پانی کو ہاتھ لگا دیا؟

مولا نے کہا ! جا اپنی بیٹی کے سر پہ پانی ڈال دے

 کہا ؟ کیوں؟ 

مولا نے کہا ! میرے بیٹے حسین نے ہاتھ لگا دیا ہے وہ یہودی گھر گیا بچی کے سر پر پانی ڈالا بچی کو شفاء مل گئی ! کہا بابا یہ کیسا پانی تھا

کہا احسین نے ہاتھ لگایا تھا کیا ا بابا میں اس حسین کو دیکھنا چاہتی ہوں وہ یہودی اپنی بیٹی کو لے کے آیا مولا حسین سے ملانے کے لیئے امام حسین نے فرمایا ! اس کو میری بہنوں کے پاس لے جاؤ ہمارے اس گھر میں پردے کا بڑا اہتمام ہے

ہند آئی جناب زینب کے پاس کہا بی بی مجھے حسین کی وجہ سے شفا ملی ہے

بی بی نے کہا ! ہند پہلا کام سیکھنا چاہتی ہو تو پردہ سیکھ لے اس نے فوراً" برقعہ لیا اور پردہ کیا !! 

ہند دربار میں تھی ہمیشہ اپنے مولا کی نذر دلایا کرتی تھی

اپنے مولا کی سلامتی کے لیے نذر دلاتی تھی!! اب جیسے ہی بیبیاں دربار میں پہنچی تو دور سے جناب زینب کی نگاہ پڑی ہند پہ.

لوگوں نے ہند سے کہا ! تیرے شوہر کو باغیوں پر فتح نصیب ہوئی ہے تو باغیوں کا تماشہ دیکھنے نہیں آئے گی اس نے کہا ضرور آؤں گی ! اس نے نقاب کیا نقاب بہت باریک تھا چہرہ نظر آرہا تھا تخت پہ کھڑی تھی دیکھ رہی تھی کہ باغیوں کا قافلہ آرہا ہے اتنے میں جناب زینب کی نگاہ

پڑی پلٹ کے جناب ام کلثوم سے کہا ! ام کلثوم پہچانا ساتھ کون ہے ؟ جناب ام کلثوم نے کہا بی بی جب سے عباس کی شہادت ہوئی ہے میری دور کی بینائی کمزور ہوگئی ہے تو جناب زینب نے کہا ! ام کلثوم ذرا غور سے دیکھو وہ جو سامنے خاتون کھڑی ہے وہ ہند ہے جسے ہم نے پردہ سکھایا تھا! اب جناب ام کلثوم سے رہا نہیں گیا کہا ! بی بی جسے ہم نے پردہ سکھایا وہ پردے میں ہے اور ہم پردے میں نہیں ہیں !!

 ایک مرتبہ ساری بیبیوں نے سر جھکا لیا کہ ہند کا سامنا نہ ہو جب بیبیاں گزرنے لگی تو ہند نے سوال کیا ! آپ کون ہے

شہر سے ہیں ؟ بی بی زینب نے کہا ہم مدینے شہر کے رہنے والے ہیں ایک مرتبہ ہند تخت سے اتر کر زمین پر آگئی ! بی بی نے کہا کیا بات ہے تخت سے کیوں اتری ہو

ہند نے کہا مدینے والوں کے احترام میں ! اب ہند نے سوال کیا ! بی بی اگر میں مدینے والوں سے متعلق پوچھوں تو آپ بتائیں گی

بی بی نے فوراً پوچھا ! کس کا پوچھنا چاہتی ہو

کہا بی بی مدینے میں میرا مولا حسین ، رہتا ہے

جناب زینب کے آنکھوں میں آنسو آگئے بی بی نے سر نہیں

اٹھایا! بی بی نے کہا! اور کسی کا پوچھنا چاہتی ہو کیا بی بی میرے مولا کا ایک بیٹا ہے ہمشکل پیغمبر ہے نام علی اکبر ہے بہت خوبصورت ہے بی بی نے کہا اور کس کا پوچھنا چاہتی ہو


کہا میرے مولا کا ایک اور بیٹا ہے نام سجاد ہے عبادت کا پیکر ہے سجدے بڑے مشہور ہیں بی بی نے کہا! اور کس کا پوچھنا چاہتی ہو ؟ کہا ! میرے مولا کا ایک بھائی ہے نام عباس ہے غیرت کا پیکر ہے ایک مرتبہ بی بی نے کہا ہند اپنے مولا کی بہنوں کا نہیں پوچھو گی! بس ایک مرتبہ جب بی بی نے کہا کہ اپنے مولا کی بہنوں کا نہیں پوچھو گی تو ہند نے کہا ! بی بی خبردار ان کے نام اس دربار میں نہ لینا وہ علی کی بیٹیاں ہیں ان کی ماں کا جنازہ رات میں اٹھا تھا ، بی بی یہ شرابی کا دربار ہے۔

وہ علی کی بیٹیاں ہیں ایک مرتبہ جناب زینب نے سر اٹھایا کہا ! ہند غور سے دیکھ میں زینب ہوں ، یہ ام کلثوم ہے، وہ رقیہ وہ رباب ہند نے ایک سوال کیا کہا ! بی بی اتنا کچھ ہو گیا عباس کہاں تھا

بی بی نے کیا ہند وہ جو تیرے شوہر کے سامنے طشت رکھا ہے اس میں حسین کا سر ہے وہ جو سامنے تھیلا ہے اس میں عباس کا سر ہے یہ جو قیدی کھڑا ہے سجاد ہے وہ جو سامنے سر ہیں پہلا علی اکبر کا، دوسرا علی اصغر کا

ساتھ میں قاسم کا !! ہند نے اپنا برقعہ اتارا دوڑتی ہوئی مجمع عام میں آگئی آواز دی یزید یہ تو نے کیا کر دیا یزید یہ علی کی بیٹیاں ہیں یہ نبی کی نواسیاں ہیں ! ایک مرتبہ یزید اٹھا اپنی عبا اتاری اور ہند کے سر

پر رکھی کہا! ہند ، تو دیکھتی ہیں نامحرموں کا مجمعہ ہے " بغیر برقعہ کے کیسے آگئی ہند نے یزید کی عبا  اتار کر زمین پر پھینکا کہا یزید جنھوں نے مجھے پردہ سکھا یا توان مستورات کو مجمعہ عام میں لے آیا !!

ایک مرتبہ وہاں سے ہند کو ہٹا دیا گیا، امام سجاد نے خطبیہ دیا، جناب زینب کبری نے خطبہ دیا جب امام سجاد خطبہ دے رہے تھے تو اس نے کہا! ازان شروع کر دو جب اذان شروع ہوئی موزن نے

 اشھد ان محمد رسول الله 

امام سجاد نے کہا ! موزن رک جا یزید یہ بتا یہ تیرے نانا کا نام ہے یہ تیرے جد کا نام یا میرے جد کا نام ہے اگر تو کہے گا یہ تیرے جد کا نام ہے تو تو جھوٹا ہے ، اگر تو کہے گا یہ میرے جد کا نام ہے تو یہ بتا ہمیں دربار میں کیوں لایا ہے ایک مرتبہ یزید نے کہا اس قیدی کا سر قلم کر دو جلاد نے تلوار کھینچیں آگے بڑھا جناب زینب نے اپنی گردن امام سجاد کے گردن پر رکھ لی کہا ! خبر دار رک جا میں نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا میں امامت کی حفاظت کروں گی ایک مرتبہ یزید نے کہا! اس خاتوں کو بھی قتل کر دو جیسے ہیں جلاد آگے بڑھا جناب فضہ آگے بڑھی سامنے کھڑی ہوگئی کہا ! خبردار جب تک فضہ زندہ ہے میں زینب پر آنچ نہیں آنے دوں گی میں نے زینب کی ماں سے وعدہ کیا تھا یزید نے کہا اس بوڑھی خاتون کو بھی قتل کر دو جب جلاد آگے بڑھا جناب نے سر اٹھایا کہا! او حبشی غلاموں میں تمہارے قبیلے سے ہوں تمہاری غیرت کہاں ہے میرے پہ تلوار اٹھے تم دیکھتے رہو وہاں سب کی تلواریں کھینچ گئی کہا ! یزید ہم بغاوت کر دیں گے فضہ پہ تلوار نہیں چل سکتی یہ ہمارے قبیلے سے ہے یزید نے کہا چھوڑدو !

اب جناب زینب سے رہا لگا نہ گیا فوراً مدینے کا رخ کیا

کہا ! نانا اماں کی کنیز فضہ کے اتنے ماننے والے آپ کی نواسی کا آج کوئی ماننے والا نہیں!!   


Next post: 2 Safar Shahdat Hazrat Zaid

         

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.