13 Safar Masaib Bibi Sakeena (s.a) - Written majlis - Nohayforyou


 

*بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ*.                             

*13 صفر المظفر*.                                 

*مصائب بی بی سکینہ ۜ*.                           


بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ وَصَلَّى اللهُ عَلى سَيِّدِنَا وَنَبِيِّنَا وَحَبِيبِ قُلُوبِنَا وَطَبِيْبِ نُفُوسِنَا وَشَفِيعِ ذُنُوبِنَا أَبِي الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَعَلَى الِهِ الطَّيِّبِينَ الظَّاهِرِينَ الْمَعْصُومِينَ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى أَعْدَائِهِمْ أَجْمَعِينَ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا إِلَى يَوْمِ الدِّين وَالْجَنَّةُ لِلْمُطِيْعِيْنَ وَالنَّارُ لِلْعَاصِينَ


عزادارو!                                                                       

 ذرا سوچیئے اس بیٹی کا مقام کیا ہوگا جسے حسین نے مانگا ہوگا۔ تہجد میں کہا ! پروردگارا ایک سینے پہ ہونے والی ہو اور اس کا نام سکینہ رکھوں گا میری تسکین کا سبب ہو! 

آپ جب عرب میں جائیں گے تو عرب میں ایران میں نام رقیہ بتایا جائے گا 

عزیزان گرامی

 نام پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وجود پہ میں اختلاف نہیں ہے !!

عزادارو ! آج خود امام حسین کو پرسہ دینا ۔ آج سید الشہداء کو پرسہ دینا مولا جب بھی بی بی سکینہ کو سینے پہ سلاتے تھے تو ہر رات مختلف کہانیاں سنایا کرتے تھے !


 ایک مرتبہ شام میں کسی خاتون نے جناب سکینہ کی طرف صدقہ پھینکا ! کہتی بی بی یہ صدقہ ہے کھا لینا اور میرے بچوں کے لیے دعا کرنا اب وہ حسین کی بیٹی تھی جلال آک

گیا کہا ! تم نہیں جانتی ہم آل محمد ہیں ہم پہ صدقہ حرام ہے؟ وہ فوراً دوڑتی ہوئی گھر گئی کہنے لگی میں نذر کے کھجور لائی ہوں زرا دعا کر دینا تمہارے چہرے پہ بڑا نور ہے یتیم بچوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں!

 جناب سکینہ ننھے ننھے ہاتھ اٹھائے ! کہا میں کھجور بعد میں کھاؤں گی پہلے بتا دعا کیا ہے؟

خؒاتون نے کہا تین دعائیں ہیں میرا شوہر سفر میں گیا ہے تجارت کے لیے دعا کرنا سلامتی واپس آئے۔ دوسری دعا کہی ! پھر تیسری دعا یہ ہے کہ جس طرح یتیم ہوئی ہیں میرے بچے ایسے یتیم نہ ہوں بی بی کو جلال آیا! کہنے لگی پھوپھی اماں میرے بابا جب مجھے سینے پہ سلاتے تھے تو ہر رات ایک کہانی سناتے تھے انبیاء کی کہانی سناتے تھے میرے بابا نے ایک کہانی سنائی تھی ایک نبی نے جن کا اللہ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے (حضرت صالح) حضرت صالح کی اونٹنی تھی پھپھی اماں میرے بابا کہتے تھے ان کی امت نے اس اونٹنی کو قتل کر دیا تھا لیکن اللہ نے اس اونٹی کو بچہ دیا تھا پھپھی اماں میرے بابا کہتے تھے کہ جب اس امت نے اس اونٹنی کا کوہان کاٹا تھا اور اونٹنی کرگئی وہ بچہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور اس نے روکے سر اٹھایا اور کہا پروردگارا اس امت پہ عذاب بھیج دے اس امت نے میری ماں کو مار دیا ! پھپھی اماں میرے بابا کہتے تھے ہے پھپھی امںاں الله نے امت پہ عذاب نازل کر دیا تھا اس بچے کی بد دعا کی وجہ سے ! پھپھی اماں میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتی

اب بی بی سمجھ گئی بی بی سکینہ کو جلال آگیا ہے) جناب زینب نے پوچھا کیا بات ہے؟ پھپھی اماں میں اونٹنی کے بچے کا مقام زیادہ تھا یا میرا مقام زیادہ

 پھپھی اماں میں بد دعا کروں گی آپ آمین کہیے گا یہ جو تازیانے مارتے ہیں میں ان کے خلاف بد دعا کرنا چاہتی ہوں جناب زینب نے کہا! بد دعا سے پہلے اپنے بابا کے سر کو دیکھ لینا آپ کے بابا نے بد دعا نہیں کی !! 

بی بی سکینہ نے اس خاتون سے کہا اپنی کھجوریں لے جا میں دعا ویسے ہی دعا کر دوں گی !

جب شام غریباں میں جناب سکینہ کو تماچے لگے اور کی بی بی بےحوش ہوگئی تو چاروں طرف سے بیبیوں نے ماتم شروع کیا آنسوبہنے لگے جب آنسو جناب سکینہ کے پیشانی پر گرے بی بی حوش میں آئی

جب پانی آیاجناب سکینہ کو سب سے پہلے پانی پیش کیا گیا ایک کوزہ میں ڈال کے کہا بی بی آپ پانی پی لو ! جناب سکینہ نے سوال کیا پھپھی اماں آپ نے سب سے پہلے مجھے پانی کیوں دیا 

کہا! بی بی آپ سب سے چھوٹی ہیں اسی لیے آپ کو سب سے پہلے پانی پیش کیا! اب ایک مرتبہ بی بی سکینہ نے کوزہ ہاتھ میں لیا اور متقل میں اتر گئی جناب رباب نے آواز دی! جناب زینب نے پوچھا بیٹی کہاں جا رہی ہو! بی بی نے کہا پھپھی اماں میں سب سے چھوٹی ہوں لیکن مجھ سے چھوٹا میرا بھیا علی اصغر ہے

جب راستے میں چل رہے تھے امام سجاد کہتے ہیں میری بہن کے سوالوں نے بہت رلایا حلب کے قریب جب بیبیوں کی رسی کھولی تو بی بی سکینہ دوڑتی ہوئی گئی اور مولا سجاد کے گلے میں بانہیں ڈالی! جیسے بی بی نے اپنی

باہیں امام سجاد کے گلے میں ڈالیں بی بی نے کہا بھیا کیا بات ہے بی بی مجھے دھوپ میں بٹھاۓ رکھتے ہیں میری زنجیریں گرم ہو جاتی ہیں جب کوئی ہلاتا ہے تو میری کھال اترنے لگتی ہے اب جب بی بی کو پانی ملا بی بی نے امام کی زنجیروں پر ڈالنا شروع کر دیا ! کہا بی بی کیا کر رہی ہیں ! بی بی نے فرمایا ! آپ ہی نے کہا تھا زنجبریں گرم ہیں میں زنجیروں کو ٹھنڈ ا کر رہی ہوں !


 بی بی کی شہادت کی تین روایات ہیں۔

جب شام غریباں میں بی بی کو تماچہ لگا تو جناب رباب نے بڑی حسرت سے جناب زینب کی طرف دیکھا

بی بی زینب سے کہا میری بچی کو بچالو جناب زینب نے کہا ! رباب اب مجھے مت دیکھنا میرا عباس نہیں رہا !! آیت الله اشتہاردی نے جو جملے لکھے ہیں! ایک مرتبہ شام کے زندان میں بہت تاریکی تھی رات کو جناب سکینہ نے خواب دیکھا خواب میں اپنے بابا حسین کو دیکھا رو کے بی بی نے کہا ! بابا مجھے چھوڑ کے مت جانا بابا شمر نے مجھے بڑے تماچے مارے میں مسلسل چچا عباس کو پکارتی رہی میں نے بہت کہا عمو میری مدد کو آؤ بابا اب مجھے ساتھ لے جاؤ اب میں جینا نہیں چاہتی !! اتنے میں بی بی کی آنکھ کھل گئی فورا آواز دی کہا اماں۔ میرے بابا ابھی یہاں کھڑے تھے کہاں ہیں میرے بابا

مجھے لینے آئے تھے (سوگ نامہ آل محمد) میں آیت الله اشتہاردی کہتے ہیں ساری بیبیاں رونے لگی ایک مرتبہ یزید نے آواز سنی اٹھ گیا کہا کیا بات ہے یہ کیوں رو رہی ہیں آرام کیوں نہیں کرنے دے رہی کہا! ایک بچی ہے بار بار کہتی ہے مجھے اپنے بابا کے پاس جانا ہے ! کہا کون ہے اس کا باپ ؟ کہا وہ حسین کی بیٹی ہے۔

کہا! جاؤ حسین کا سر دے دو ایک طشت میں سر سید الشہداء رکھا اس پہ ایک کپڑا ڈالا جب طشت لائے ہاتھ میں ایک مشعل تھی! بی بی نے جب طشت دیکھا ! کہا اب مجھے کھانا نہیں چاہئیے مجھے کوئی بھوک پیاس نہیں ہے مجھے بابا کے پاس جانا ہے اُس نے طشت سے کپڑ ہٹایا بی بی نے بابا کے سر کو دیکھا کہا! بابا جب خیمے سے گئے تھے آپ کی رگیں کٹی ہوئی نہیں تھی بابا میری محبت کا واسطہ میرے پاس آجائیے ایک مرتبہ طشت سے سر اٹھا بی بی نے آغوش میں لیا اپنے گال کو امام حسین کے رخسار پہ رکھا کہا! بابا مجھے لے جاؤ میں زندان میں نہیں رہنا چاہتی ایک مرتبہ بیبیوں نے حلقہ باندھا رونا شروع کیا دیکھا بی بی گر گئی جب بی بی گری امام سجاد نے کہا!

ان للہ وان الیہ راجعون

 بی بی سمجھ گئی اب بچی نہیں رہی امام سجاد نے زندان میں قبر کھودی جب لاشہ ہاتھوں میں لیا آواز دی او بَہتَر (72) کے عزادار بابا اپنے بیٹی کے لاشے کو لے لو۔۔۔۔۔۔ 



Previous post: 2 Safar Duvum Farzand imam Sajjad a.s 



Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.