11 Muharram Masaib - Masaib Um-e-Rabab (s.a) - Written majlis - Nohayforyou


                         *بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ*

*11 محرم الحرام مصائب !!*                       

*موضوع*                                                                     

*مصائب ام رباب(س)"*                        


*بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلا بِاللهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ وَصَلَّى اللهُ عَلى سَيِّدِنَا وَنَبِيِّنَا وَحَبِيبِ قُلُوبِنَا وَطَبِيْبِ نُفُوسِنَا وَشَفِيعِ ذُنُوبِنَا أَبِي الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَعَلَى الِهِ الطَّيِّبِينَ الظَّاهِرِينَ الْمَعْصُومِينَ وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى أَعْدَائِهِمْ أَجْمَعِينَ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا إِلَى يَوْمِ الدِّين وَالْجَنَّةُ لِلْمُطِيْعِيْنَ وَالنَّارُ لِلْعَاصِينَ*


عزاداران امام حسینؑ

جب گیارہ محرم کا دن نکلا روایت کے الفاظ ہیں بیبیاں میںدان کربلا میں ایسے بکھر گئیں جیسے ایک ٹوٹی ہوئی تسبی کے دانے بکھرتے ہیں کوئی کسی لاشے پہ چلی گئی کوئی کسی لاشے پہ ، کوئی رو رو کے کہ رہی تھی

 واعباسا

 ایک بی بی کہتی تھی وا على اکبراء !" 

ایک بی بی بار بار کہتی تھی وا قاسما !

 لیکن راوی کہتا ہے دو بیبیاں کسی لا شے پہ نہیں گئیں وہ دو بیبیاں صرف مولا حسین کے لاشے پہ آئیں پہلی بی بی کا نام ہے زینب کبری جناب زینب عون و محمد کے لاشے پہ نہیں گئی بی بی کے ہاتھ پس گردن بندھے تھے !!

 مولا سجاد فرماتے ہیں ! میری پھپھی نے میرے بابا کا طواف شروع کر دیا طواف کرتی جاتی تھی روتی جاتی تھی اور پھر ایک مرتبہ رو کے کہا اماں آپ نے وصیت کی تھی حسین کا گلے کا بوسہ دینا۔

 مولا سجاد فرماتے ہیں: ایک نگینے کے برابر جگہ نہیں تھی میرے بابا کے بدن پہ جہاں میری پھپھی بوس دے سکتی

مولا فرماتے ہیں ! میرے بابا کے کٹے ہو گلے پہ میری پھپھی نے لبوں کو رکھا اور رو کے کہا ! اماں آپ کی وصیت پہ عمل کر دیا۔

 جناب ذینب نے رع کے بوسہ دے کے کہا!  اماں آپ کا حسین بڑا مظلوم ہے پھر ایک مرتبہ جناب زینب نے سر اٹھایا رو کے مدینے کا رخ کر کے کہا! 

یا جدا سنا عليك ملیک الثناء


جناب زینب نے اپنے نانا کو بلایا کہا نانا ذرا آکے دیکھئے یہ آپ کا حسین نانا اتنے پتھر مارے گئے اتنے تیر مارے گئے حسین کا پورا لاشہ پورا پتھروں میں گرا ہے۔ نانا ملائکہ نازل ہوئے تھے جنازہ پڑھنے کے لیئے نانا یہ آپ کا حسین اس کا خون زمین پر بہہ رہا ہے

جناب زینب نے ایک مرتبہ طواف کیا !!

 اب آئیں وہ دوسری بی بی راوی کہتا ہے بی بی کی رورو کے آنکھیں پتھرا گئی تھی بی بی کے آنسو خشک ہو گئے تھے بی بی کسی لاشے پہ نہیں گئیں بی بی کے دونوں ہاتھ پس گردن بندھے تھے ایک مرتبہ رو کے کہا ! اے میرے آقا حسین اگر میرے ہاتھ کھلے ہوئے ہوتے میں اپنے ہاتھوں سے آپ کے لاشے پہ سایہ کرتی ، مولا اگر میرے سر پر چادر ہوتی میں چادر کا آپکو کفن دے دیتی مولا میں آپ کے لاشے کو تپتی ریت پہ دھوپ میں چھوڑ کے جا رہی ہوں وعدہ کر کے جا رہی جب تک

 زندہ رہوں گی سائے میں نہیں بیٹھوں گی مولا میں جانتی ہوں آپ کو شہادت سے پہلے پانی نہیں پلایا گیا مولا میرا آپ سے وعدہ ہے جب تک زندہ رہوں کی ٹھنڈا پانی نہیں پیوں گی ، مولا میرے پاس دو نشانیاں تھیں علی اصغر اور سکینہ مولا میں نے اپنا علی اصغر آپ پہ قربان کر دیا ، مولا جب موقع ملا تو سکینہ کو بھی آپ پہ قربان کردوں گی!! ایک مرتبہ جناب رباب نے بہت رو کے وعدہ کیا مولا حسین سے ! مولا میں کبھی ٹھنڈ ا پانی نہیں پیوں گی 11 محرم کو جناب رباب بیبیوں کے ساتھ مولا سجاد کے ساتھ کربلا سے چلی کوفے گئی کوفے سے شام شام میں رہائی مل گئی جیسے ہی رہائی مل گئی مولا سجاد نے بیبیوں سے کہا ! اب ہمیں رونے کی اجازت ہے.

 رہائی ملنے پر لوگ خوش ہوتے ہیں بیبیاں رو رہی تھی کوئی بی بی رو رو کے کہہ رہی تھی واعباسا ، کوئی کہتی و اعلی اکبر جب سب بیبیاں خاموش ہو جاتی تو ایک بی بی بہت دھیمی آواز میں کہتی وا علی اصغراء جب سب بیبیاں خاموش ہو جاتی تو آخر میں جناب زینب کہتی! وا حسینا ا" 

رہائی مل گئی مولا سجاد نے کہا ! شہداء کے سرواپس کر دو، تبارکات واپس کر دو ، جب شہداء کے ، سر واپس آنے لگے پہلا سر جو آیا بڑا ننھا سا سر تھا جناب رباب نے برقع کا دامن پھیلایا کہا لاؤ یہ سر مجھے دے دے دو بی بی نے روکے سوال کہا ! کیا تجھ جیسےبچوں کو بھی نحر کیا جاتا ہے

اتنے میں تبرکات واپس آنے لگیں دو چھوٹی چھوٹی بالیاں جناب رباب نے تڑپ کے کہا ! بالیاں واپس لے جاؤ جس بچی کی بالیاں تھی وہ نہیں رہی اتنے میں ایک انگھوٹی آئی جناب زینب نے پوچھا سجاد یہ انگھوٹی کس کی ہے مولا کے آنسو بہنے لگے کیا میرے بابا کی بجبل نے انگلی کاٹ کے انگوٹی نکال لیا تھا"  !!

 تین دن گزر گئے بیبیاں رو رہی ہیں مولا سجاد نے کہا ! پھپھی اماں بیبیوں سے کہہ دیجئے کل صبح ہم مدینے واپس چلے جائیں گے سب بیبیاں تیار رہیں جیسے صبح نمودار ہوئی مولا سجاد نے پوچھا پھپھی اماں کیا بیبیاں تیار ہیں ، جناب زینب نے فرمایا بیٹا سجاد سب بیبیاں تیار ہیں لیکن نہ جانے آج فجر کے بعد سے رباب کہاں چلی گئی مولا سجاد کے آنسو بہنے لگے کہا پھپھی اماں مجھے پتہ ہے میری ماں کہاں ہے بیبیوں سے کہیں سامان لے لیں راستے سے ماں کو لے لیں گے کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک مرتبہ جناب زینب نے کہا ! سجاد یہ راستے تو زندان کو جاتا ہے کہا ! پھپھی اماں میری ماں زندان کی ایک چھوٹی سی قبر ست وداع کرنے گیئ ہیں 

 علماء فرماتے ہیں! جیسے ایک ماں بچے سے لپٹ کے روتی ہے جناب رباب قبر سے لپٹی ہوئی تھی رو کے کہہ رہی تھی سکینہ اٹھو ہم مدینے جا رہے ہیں بیٹی آپ کو شوق تھا سب سے ذیادہ مدینے جانے کا ایک مرتبہ مولا سجاد نے ماں کا بازو تھاما کہا مادر گرامی صبر کیجئے۔

جب بییاں کر بالا آئیں تین دن تک کربلا میں روتی رہی تیسرے دن مولا سجاد نے کہا پھپھی اماں بیبیوں سے کہیں صبح تیار رہیں مدینے واپس جا رہے ہیں صبح ہوتے ہی مولا سجاد نے پوچھا بیبیاں تیار ہیں کہا سجاد سب بیبیاں تیار ہیں رباب تیار نہیں ہے مولا سجاد اٹھے ایک مرتبہ جناب رباب کے پاس آئے کہا ! مادر گرامی کیا بات ہے آپ تیار نہیں ہیں ! کیا سجاد میں مدینے جا کے کیا کروں سجاد میرے مولا حسین کربلا میں ہیں ، سجاد میرا علی اصغر کربلا میں ہے ۔ سجاد میری سکینہ شام میں ہے! مولا سجاد نے کہا ! اماں آپ کربلا میں کیا کریں گی ؟ بی بی کہتی ہیں میں قبروں پر پانی ڈالا کروں گی۔ جب زائرین آئیں گے میں بتاؤں گی یہاں علی اصغر کو تیر لگا تھا میں بتاؤں گی وہاں علی اکبر کو برچھی لگی تھی سجاد میں قبروں کی صفائی کیا کروں گی مولا سجاد نے فرمایا مادر گرامی میری غیرت برداشت نہیں کرتی میں آپ کو یہاں تنہا چھوڑ جاؤں !!


شیخ محمد مہدی معالی سبتین جلد : 2 میں لکھا ہے: کہ چار مہینے جناب رباب زندہ رہیں جب مدینہ واپس آگئی تو ایک دن جناب زینب نے مولا سجاد سے کہا اے سید سجاد آپ کی ماں رباب کے سر کے سارے بال سفید ہو گئے " اپنی ماں سے کہو سائے میں آجائے رباب کی کمر ٹوٹ گئی ہے جاری ہے ہے رباب سے بیٹھا نہیں جاتا سارا دن دھوپ میں بیٹھی بیٹھی رہتی ہیں گرم پانی پیتی ہیں سجاد ماں سے کہو سائے میں آجائے ایک مرتبہ امام سجاد نے کہا ! مادر گرامی سائے میں آجائے جناب رباب نے کہا ! سجاد میں نے آپ کے بابا سے کربلا کی تپتی ریت پہ وعدہ کیا تھا میں سائے میں نہیں جاؤں گی امام سجاد نے کہا ! مادر گرامی اب میں بیٹے کی حیثیت سے نہیں امام کی حیثیت سے حکم دے رہا ہوں سائے میں آجائے پھپھی اماں میری ماں کے بازو تھامیئے ایک بازو جناب زینب نے پکڑا دوسرا باز و امام سجاد نے پکڑا جناب رباب کو زمین سے اٹھایا بی بی نے ہاتھوں کو بلند کیا کہا پروردگارا میرے وعدے کی لاج رکھ لے میں نے تیرے حسین سے وعدہ کیا تھا کبھی سائے میں نہیں جاؤں کی امام سجاد نے آواز دی پھپھی اماں میری ماں کو لیٹا دیں ان کی روح پرواز کرگئی سکینہ کو رونے والی چلی گئی۔ 

عزادارو

آپ سے ایک سوال کروں؟ آپ نے مصائب دیکھے تو نہیں ہیں صرف سنتے ہیں اب کوئی تعجب نہ کرے امام سجاد خون کے آنسو کیوں روتے تھے

چوتھے امام فرماتے ہیں ! میرے بابا کے مصائب میں ایسے رو جیسے ایک بوڑھی ماں جوان بیٹے کے لاشے پہ روتی ہے!!


Next post: 12 Muharram Masayib




Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.